carona-19 virus

Smog and its Effects on Life

Image
  سموگ اور زندگی  پر  اس کے  اثرات آج کل لاھور  میں سموگ کے بادل چھائے ہوئے ہیں یہ اس سموگ زہر قاتل سے کم نہیں اس نے بچوں بڑوں بوڑھوں کی زندگی کو اجیرن کر کے رکھ دیا ھے جس سے نا صرف  لاھور بلکہ سارا پنجاب اس کالی آندھی کی لیپٹ میں ھے آخر یہ زھر قاتل سموگ ھے کیا سموگ کالی یا پیلی دھند کا نام ھے جو فضاء میں آلودگی سے بنتی ھے یہ ذرات مختلف گیسیں مٹی اور پانی کے بخارات اسے مل کر بناتے ہیں اس کی بنیادی وجہ صنعتوں گاڑیوں کوڑا کرکٹ اور فصلوں کی باقیات کو جلانے سے سلفر ڈائی آکسائیڈ نائٹروجن آکسائیڈ کی بڑی مقدار میں ذرات بھی ھوا میں شامل ھو جاتے ھیں جب سورج کی کرنیں ان گیسوں پر پڑتی ھیں تو یہ سموگ کی شکل اختیار کر کے فضا کو آلودہ کر دیتی ھے اور دوسری جانب جب سردیوں میں ہوا کی رفتار کم ھوتی تو دھواں اور دھند جمنے لگتے ھیں تو یہ زہر قاتل سموگ کی شکل اختیار کر لیتے ھیں دھواں دار گاڑیوں اور آئیرکنڈشنر کے خطرناک گیسیس کا دھواں گردو غبار وغیرہ شامل ہیں سب سے بڑی ظلم کی انتہا یہ ھے کافی عرصہ سے سڑکوں پر سے سالوں پرانے درخت کاٹ کر چھوٹے چھوٹے بے کار پودے لگا دئیے گئے ہیں جس سے ماحولیاتی آلودگی دن بدن

Online education system

Online education system


تعلیم کا آن لائن نظام 

سال ۲۰۲۰ ایک انتہائی مختلف سال تھا۔ عالمی سطح پر پھیلنے والی کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے نظامِ زندگی مکمل طور پر مفلوج ہو کر رہ گیا اور جس نے زندگی کے تمام شعبوں کو متاثر کیا۔ لاکھوں لوگ اس وبا کی وجہ سے گھروں میں بیٹھنے پر مجبور ہوئے لیکن تمام تر مشکلات کے باوجود دورِ حاضر کے جدید آلات نے کچھ ایسی روایات کو جنم دیا جو کہ کہیں انتہائی فائدہ مند ثابت ہوئی اور کہیں نقصان دہ۔ آن لائن تعلیمی نظام بھی ایک ایسی ہی جدید ایجاد ہے۔ جس کی بدولت طلبہ اپنے گھروں میں بیٹھے انٹرنیٹ کی مدد سے بذریعہ کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ لیکچرز لے سکتے ہیں۔ جہاں آن لائن تعلیمی نظام نے ایک اعتبار سے دنیائے تعلیم میں ایک انقلاب برپا کردیا وہیں یہ جدید نظام طلبہ کے لئے کئی نقصانات کا موجب بھی بنا۔ خواہ وہ نقصانات انفرادی ہوں یا مجموعی انہیں نظر انداز کرنا غلط ہوگا۔

   آئیے پہلے بات کرتے ہیں آن لائن تعلیمی نظام کے فوائد کی ۔ آن لائن تعلیمی نظام کی بدولت آج یہ ممکن ہوچکا ہے کہ خواہ آپ کہیں بھی ہوں تعلیم جیسی نعمت سے مستفید ہوسکتے ہیں۔ آپ کو میلوں سفر کر کہ جماعت میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں، کلاس روم آپ کی موبائیل ڈیوائیس میں ایک کلک کی دوری پر ہے۔ ماضی میں جہاں ہزاروں گاڑیوں کا ایندھن جلا کر اور ماحولیاتی آلودگی کا آلاکار بن کر لوگ کالج یونیورسٹیوں تک پہنچتے تھے اب گھر بیٹھے اسی کلاس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ ماحولیاتی اعتبار سے دیکھا جائے تو دنیا کو آج جن گلوبل وارمنگ کے خطرات کا سامنا ہے ایندھن اور فاسل فیولز کا بے جا استعمال ان کی سب سے بڑی وجہ ہے۔ورچوئل لرننگ پروگرام ایک ایسی جدید ایجاد ہے جس کی وجہ سے ہم اپنے ایندھن کے استعمال میں خاطر خواہ کمی لا سکتے ہیں۔ عموماً طالب علموں کو کالجز کی آمد و رفت کے لئے کافی زیادہ اخراجات اٹھانے پڑتے ہیں، پیٹرول کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے طلبہ پر بھی ان اخراجات کا بوجھ بڑھتا جا رہا تھا۔ آن لائن تعلیمی نظام کی وجہ سے یہ بوجھ قدرے کم ہوگیا ہے۔ اسی وجہ سے آپ اب وقت کی بچت بھی کر سکتے ہیں۔ آنے جانے پر جو وقت لگتا تھا اب وہ کسی اور جگہ استعمال ہو سکتا ہے۔ ان فوائد کے علاوہ طلبہ کو انفرادی طور پر بھی اس جدید نظام نے بہت فائدہ پہنچایا ہے۔ جیسے کہ جدید آن لائن سسٹم سے ہم آہنگی کی بدولت اب  لرننگ بیریئر انتہائی کم ہوتے جا رہے ہیں۔ طلبہ کی گھروں میں بیٹھے آن لائن لائبریریز تک رسائی اور مطالعہ اب ایک معمولی امر بن چکا ہے۔ با آسانی کسی بھی کتاب یا آرٹیکل کو کمپیوٹر میں ڈائون لوڈ کر کہ آپ فوری طور پر اسے پڑھ بھی سکتے ہیں۔  علم کا ایک وسیع ذخیرہ آپ کی انگلیوں کے اشاروں کا محتاج ہے۔ آپ کی لا تعدار علمی ریسورسز تک رسائی اس آن لائن تعلیمی نظام کی وجہ سے اب ممکن بن چکی ہے۔

جدید آن لائن تعلیمی نظام کے کئی نقصانات بھی ہیں جو کہ نظر انداز نہیں کئے جا سکتے۔ تعلیم کے حصول کے لئے کئی طلبہ دور دراز کے علاقوں سے سفر کر کے شہروں میں آتے ہیں۔ کچھ انتہائی پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں جہاں نہ تو اعلیٰ اور معیاری تعلیم کے خاطر خواہ ذرئع موجود ہیں اور نہ ہی جدید انٹرنیٹ سروسز۔ ایسے طالب علم اس نعمت سے محروم ہیں کہ وہ اپنے گھروں میں بیٹھ کر کلاس روم کا حصہ بن سکیں۔ تعلیمی اداروں کا بند ہوجانا ان کے لئے نقصان دہ ثابت ہوا۔ بلوچستان اور فاٹا سے بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں میں آنے والے طلبہ  کی ایک بڑی تعداد اس سال تعلیمی سرگرمیوں سے محروم رہی۔ اپنے علاقوں میں واپس جا کر جہاں انٹرنیٹ اور دیگر جدید سہولیات کا فقدان ہے وہ اپنی تعلیم سے محروم ہوگئے۔ انٹرنیٹ جیسی سہولت جن علاقوں میں میسر نہیں وہاں کے طلبہ شدید مشکلات کا سامنا کر رہے ہیں۔  اس کے علاوہ بھی آئن لائن نظام کی وجہ سے طلبہ کو بہت سی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ جیسے کہ کئی طلبہ کے لئے لیپ ٹاپ اور انٹرنیٹ کے اخراجات برداشت کرنے میں دشواری پیش آتی ہیں۔ ٹیکنولوجی کی بڑھتی قیمتیں بھی اس کی ایک وجہ ہے۔ مسلسل کمپیوٹر سکرین پر نظر لگانے کی وجہ سے اور ایک ہی کرسی پر گھنٹوں بیٹھ کر تعلیم حاصل کرنے کی وجہ سے طلبہ کو دیگر طبی مسائل سے دوچار ہونا پڑ سکتا ہے۔ آن لائن نظام کی بدولت منعقد کئے جانے والے امتحانات میں نقل کرنا انتہائی آسان ہے، کیوں کہ وقتِ حاضر میں پاکستان میں ایسی ٹیکنولوجی موجود نہیں جو کہ امتحانات کے شفاف انعقاد کو یقینی بنانے میں مدد کرے۔ آن لائن امتحانات میں با آسانی نقل ان طلبہ کا استحسال ہے جو کہ دن رات اپنی تعلیم کے لئے محنت کرتے ہیں۔ اس نظام کی وجہ سے طلبہ غیر نصابی سرگرمیوں سے محروم ہوچکے ہیں جو کہ ذہنی نشونما کے لئے انتہائی ضروری ہے۔ آپس میں میل جول طلبہ کو سوشل سکلز بھی سکھاتا ہے جو پروفیشنل زندگی کے لئے بہت ضروری ہے۔  اس نظام کی وجہ سے طلبہ کو ایسے مواقع میسر نہیں جو کہ ان کو معاشرتی سکلز جیسے کہ کمیونیکشن سکلز سکھا سکیں۔ انسان کے لئے سماجی طور پر ایک کمیونٹی یا برادری سے منسلک رہنا اور روزانہ کا میل جول بہت ضروری ہے۔ یہ انسان کی ذہنی صحت کے لئے بھی ضروری ہے۔ کالجز اور یونیورسٹیوں میں موجود کھیل کے میدان اور کامن رومز طلبہ کو ان چیزوں سے مستفید کرتے ہیں۔ اب طلبہ ان سہولیات سے محروم ہو رہے ہیں۔

   آن لائن تعلیمی نظام جہاں ہمیں سیکھنے اور سمجھنے کے لاتعداد مواقع فراہم کرتا ہے وہیں یہ نظام ہمیں سماجی اور سوشل اعتبار سے محدود بھی کرتا ہے۔ یہ بظاہر تو ایک ادنا  سا مسئلہ نظر آتا ہے لیکن اس کی وجہ سے لاتعداد طلبہ ذہنی پریشانیوں کا شکار ہیں۔ کئی نفسیاتی ماہرین کے نزدیک بڑھتا ہوا  انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کا استعمال اور کم  ہوتا ہوا سماجی میل جول کئی ذہنی بیماریاں جیسے کہ ڈپریشن اور اینگزائٹی کا موجب بنتا جا رہا ہے۔

  یہ ایک حقیقی امر ہے کہ جدید تعلیمی نظام نے دنیائے تعلیم میں ایک انقلاب برپا کردیا ہے۔ کالجز اور یونیورسیٹوں کا بند ہونے اور آن لائن سسٹم کا متعارف ہونے سے بجلی اور ایندھن کی بچت کی جا سکتی ہے، طلبہ گھروں میں بیٹھ کر علم کے سمندر میں غوطہ زن ہو سکتے ہیں لیکن وہیں انہیں ڈھیروں پریشانیوں اور مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ہر چیز میں ایک توازن قائم کریں۔ کس بھی چیز کا شدت سے استعمال اور زیادتی کرنا کئی پیچیدگیوں کو جنم دیتا ہے۔ طلبہ کو چاہئے کے اپنی جسمانی اور ذہنی صحت  کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے رویوں کو اپنائیں جو کار آمد ثابت ہوں۔ جیسے کہ کثرت سے ایکسرسائیز اور دیگر غیر نصابی سرگرمیاں جو ذہنی نشونما کے کئے ضروری ہیں۔ تعلیمی اداروں کو بہتر انٹر ایکٹو ٹیکنالوجیز کو بروئےکار لانا چاہئے جو مواصلاتی رکاوٹوں کو پار کر کہ طلبہ کو بہتر انداز میں تعلیم میں مشغول کر سکے۔ نقل کی روک تھام کے لئے امتحانات کے انعقاد میں سیف اینڈ سیکیور انٹر فیس متعارف کروائے جائیں۔ حکومت وقت کو چاہئے کہ پسماندہ اور دیہی علاقوں کو بھی جدید سہولیات سے آراستہ کرے تاکہ ان علاقوں کے طلبہ بھی اس وبا کے دوران اپنی تعلیم جاری رکھ سکیں۔

Comments

Popular posts from this blog

What Is Microsoft PowerPoint?

Coronavirus disease (COVID-19) advice for the public

use the noun

6 Easy Ways to Win More Social Media Backlinks Instantly

Affidavit for General Police Verification

Great places to sell your designs online

Punjabi Culture

Chief Minister Punjab Maryam Nawaz's “Apna Ghar, Apna Chhat Scheme: A Promising Initiative for Affordable Housing

Dolphin Police Jobs 2020 – Latest Vacancies in Dolphin Force

The Latest in Mobile Technology: What’s New in 2024